Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”بیگم صاحبہ! صاحب کھانا نہیں کھائیں گے انکار کر رہے ہیں۔“ ملازم نے مسز عابدی سے آکر کہا۔
”اوکے تم جاؤ۔“ ہینڈ لوشن کا مساج کرتی ہوئیں وہ لمحے بھر کو رکی تھیں تردد کے کچھ رنگ ان کے چہرے پر بکھرے تھے جو قریب کھڑے عابدی صاحب نے نوٹ کئے تھے۔
”کیا ہوا، اتنا پریشان کیوں ہو گئی ہو؟“ وہ بال رش کرتے ہوئے استفسار کرنے لگے تھے۔
”بابا کا ایٹی ٹیوڈ میری سمجھ نہیں آتا ہے ان کے کسی کام میں ذمہ داری ہے نہ وہ احساس جو بچوں کو اپنے گھر سے، اپنے والدین سے ہوتا ہے، ایسا خاص لگاؤ نہیں ہے ان کو ہم سے۔
“ ان کے انداز میں گہرا دکھ تھا بددلی سے انہوں نے لوشن ٹیبل پر رکھا تھا۔ عابدی غور سے ان کے تاثرات دیکھ رہے تھے۔
”کیا ڈارلنگ کیوں اتنا پریس ہوتی ہو، شیری نے ڈنر سے انکار یا ہے تو اس کو بھوک نہیں ہو گی۔


“ ان کے شانے پر ہاتھ رکھ کر پیار سے سمجھایا۔

”اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کو اوائیڈ کیا جاتا ہے دل سے لگانے والی باتیں نہیں ہوتی ہیں یہ۔
تمہیں پہلے ہی ہارٹ پرابلم ہے ڈاکٹر نے ٹینشن فری رہنے کی ایڈوائز کی ہے۔“
”ٹیشن نہ لوں، عابدی ایسا کون بے وقوف ہوگا جو یہ چاہے گا فکروں کے سانپ اسے ڈستے رہیں، وسوسوں اور واہموں کے آسیب سے سب ہی جان چھڑانا چاہتے ہیں اور میں بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ہوں جو خوش و خرم رہنا چاہتے ہوں۔ ٹینشن ہمیں حالات دیتے ہیں یا وہ لوگ جن سے ہم محبت کرتے ہیں اور ان کی فکر اور پروا کرتے ہیں۔
“ وہ اضطرابی انداز میں کہہ رہی تھیں۔
”وہ ایک عرصہ ہم سے، گھر سے اور ماحول سے دو رہا ہے ہم سے دور رہ کر اس نے آزاد اپنی مرضی سے زندگی گزاری ہے، یہاں کے ماحول میں ایڈجسٹ ہونے کیلئے شیری کو ٹائم لگے گا اور تب تک آپ بھی عادی ہو جائیں گی اس ماحول کی جو شیری کی وجہ سے آپ فیل کر رہی ہیں۔“
”جی، میری وجہ سے آپ بھی ڈسٹرب ہو گئے ہیں۔
“ عابدی کو فکر مند دیکھ کر مسز عابدی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”آپ کو پارٹی میں جانے کی دیر ہو رہی ہے جائیں آپ، میں ٹھیک ہوں، آپ میری فکر مت کریں پلیز۔“
”مجھے سب سے زیادہ تمہاری فکر ہوتی ہے میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں، مجھے کسی کی پرواہ نہیں اپنی دونوں بیٹیوں اور اکلوتے بیٹے شہر یار کی بھی میں اتنی فکر نہیں کرتا جس قدر مجھے تمہاری فکر ہے۔
“ وہ انہیں سینے سے لگاتے ہوئے جذباتی انداز میں کہہ رہے تھے۔
”آئی نو، عابدی! مجھے معلوم ہے اور یقین ہے آہستہ آہستہ شیری بھی سنبھل جائے گا، آپ جائیں یہ بزنس میٹنگ ہے۔“ عابدی کی محبت نے انہیں پرسکون کر دیا تھا۔
###
رات گئے تک وہ اپنی منزل مقتول پر پہنچے تھے۔
وہ خوبصورت نخلستان تھا، آسمان صاف تھا ہوا خشک اور فضا میں حبس کی کیفیت تھی گاڑی کی رفتار دھیمی ہو گئی تھی۔
کچھ فاصلے پر درختوں کے جھنڈ نظر آ رہے تھے جن میں کھجور کے درخت نمایاں تھے اور ان درختوں کے درمیان میں بنا محل نما گھر دکھائی دینے لگا تھا بے حد خوبصورت گھر دیکھ کر وہ خوشی سے بولی۔
”او میرے خدایا! یہ اتنا خوبصورت محل نما گھر تمہارا ہے ساحر؟“
”ہوں… اب اپنا ہی سمجھو۔“ وہ مسکرا کر گویا ہوا۔
”اوہ رئیلی! میں تو کبھی خواب میں ایسا شاندار گھر نہیں دیکھ سکتی تھی، دور سے اتنا خوبصورت لگ رہا ہے تو اندر سے نامعلوم کس قدر حسین ہو گا۔
“ وہ شیشے سے چہرے ٹکائے دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ ابھی گاڑی اس محل نما عمارت سے دور تھی ایک عجیب بات ساحر نے دونوں کھڑکیوں کے سائیڈ میں موجود ریشمی و بھاری پردوں کو ربن سے آزاد کرکے برابر کھڑکیوں کے شیشوں کو ڈھانپ دیا تھا، ایک پردہ ایسا ہی ان کی اور ڈرائیور کی سیٹ کے درمیان بھی حائل ہو چکا تھا اور بیک مرر پر بھی وہ چار دیواری کے درمیان تھے۔
”یہ… یہ پردے… یہ پردہ داری کیوں بھلا؟“ اس نے نہ سمجھے انداز میں ساحر کی طرف دیکھا تھا۔
”گھبراؤ مت، میرے ڈیڈ حجاب کو پسند کرتے ہیں وہ تمہارا اس طرح عام سے لباس اور بنا حجاب سامنے آنا بالکل پسند نہیں کریں گے۔“
”تم یہ مجھے بتا دیتے پاکستان میں ہی، میں وہیں سے حجاب لے لیتی۔ تم نے مجھے بالکل ہی ڈرا دیا تھا، میں بری طرح خوف زدہ ہو گئی تھی۔
“ اس نے چہرہ اس کے بازو سے ٹکاتے ہوئے لرزاں لہجے میں کہا۔
”کیا بات ہے رخ! آج کل تم کو ذرا ذرا سی بات پر ڈر بہت لگنے لگا ہے؟ پہلے تو تم ایسی نہ تھیں۔“
”ہاں ٹھیک کہہ رہے ہو تم ساحر! میں کسی سے ڈرنے والی نہیں ہوں لیکن اب شاید میں خود کو تنہا محسوس کر رہی ہوں، شاید گھر والوں سے پہلی بار میں اتنی دور ہوئی ہوں۔ اسی وجہ سے ایک انجانا خوف مجھے گرفت میں لئے ہوئے ہے۔
“ سیدھے بیٹھتے ہوئے اس نے دلی کیفیت بیان کی تھی ساحر نے جواباً کوئی لفظ نہ کہا، وہ آنکھیں بند کرکے سیٹ سے ٹیک لگا کر خاموش ہو گیا تھا۔ گاڑی میں لائٹ روشن تھی اے سی کی کولنگ بڑھ چکی تھی ان کے درمیان عجیب سی خاموشی تھی۔
گاڑی دھیمی رفتار سے رواں دواں تھی کن راستوں سے گزر رہے تھے وہ لوگ کچھ معلوم نہ تھا دبیز پردوں نے ہر منظر ہڑپ کر لیا تھا۔
”ساحر… ساحر! یہ گاڑی کب رکے گی آخر؟“ اس نے اکتا کر آنکھیں بند کئے ساحر کو شانہ ہلا کر استفسار کیا۔
”دس منٹ بعد، ہم محل میں داخل ہو چکے ہیں۔“ وہ آنکھیں کھول کر سنبھل کر اٹھتا ہوا گویا ہوا۔
”ہونہہ! ایسے محل کا فائدہ کیا ہے جسے دیکھنے کیلئے بھی آنکھیں ترسیں، اپنے ڈیڈ کو بتا دینا میں حجاب لگا کر محل کا گوشہ گوشہ دیکھوں گی۔
“ اسی پل گاڑی رکی تھی۔
###
کمرے میں دھواں پھیلا ہوا تھا سگریٹ کے جلے ہوئے کئی ٹکڑے ایش ٹرے، ٹیبل اور کارپٹ پر بکھرے ہوئے تھے ٹیبل لیمپ کی روشنی میں نیم اندھیرے کمرے میں عجیب سی وحشت پھیلی ہوئی تھی۔ وہ بیڈ پر نیم دراز تھا ہونٹوں میں دبا جلتا ہوا سگریٹ ابھی بھی تھا۔ ایک خالی بوتل اس کے قریب ہی پڑی تھی اور وہ بڑبڑا رہا تھا۔
”پری! کیوں خفا رہتی ہو مجھ سے؟ میں تو تمہاری خاطر تمہارے گھر گیا تھا، تمہیں دیکھنے، تم سے ملنے اور تم کس قدر اسٹون ہارٹ ہو، مجھ سے کہتی ہو تمہارے دوست میرے جیسے نہیں ہیں، تم کو اگر اپنے باپ کی عزت کا خیال نہ ہوتا تو تم مجھ کو دھکے دے کر اپنے گھر سے نکال دیتیں۔“ وہ اضطرابی انداز میں گہرے گہرے سانس لے رہا تھا۔
”تم مجھے گھر سے نکالنے کی بات کرتی ہو اور میں تمہیں اپنے گھر انوائٹ کرنے گیا تھا، کتنی چاہ سے گیا تھا میں اور تم نے کتنی نفرت سے مجھ کو دھتکارا ہے میری بے عزتی کی ہے۔
لیکن مجھے برا نہیں لگا، میں تمہاری کسی بھی بات کا برا نہیں مانوں گا، تمہارا غصہ ہی تو مجھے اچھا لگتا ہے تمہاری خفگی کا ہی تو میں دیوانہ ہوں۔“
”شیری!“ مسز عابدی ڈور کھول کر اندر آئیں دھوئیں اور اسمیل نے ان کا استقبال کیا تھا آگے بڑھ کر سوئچ آن کئے تھے، نیم تاریک کمرہ ایک دم روشن ہو گیا۔
”شٹ ماما! پلیز لائٹس آف کریں، بیڈ فیل ہو رہا ہے۔
“ اس نے آنکھوں پر بازو رکھتے ہوئے بلند آواز میں کہا تھا۔
”مائی گاڈ! اتنی سگریٹس پی لئے ہیں آپ نے اور یہ ڈرنک بھی؟“ وہ پریشانی سے سگریٹ کے ٹکڑوں اور بوتل کو دیکھ کر گویا ہوئی تھیں۔“ آخر تم چاہتے کیا ہو شیری؟“
”کیا ہوا ماما! اتنا ہائپر کیوں ہو رہی ہیں آپ؟“
”یہ سب کیا ہے جب سے آفس سے آئے ہیں کمرے میں بند ہو کر یہ کیا حرکتیں کر رہے ہیں؟ ڈنر بھی نہیں کیا ہے آپ نے۔
“ وہ اس کے قریب بیٹھ کر گویا ہوئی تھیں۔
”آپ کو عادت نہیں میری، میرا یہی لائف اسٹائل ہے میں اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا عادی ہوں، آپ بار بار میرے روم میں انٹر ہو کر مجھے ڈسٹرب مت کیا کریں۔“ اس نے اٹھ کر سگریٹ ایش ٹرے میں رگڑا اور تند لہجے میں ان سے مخاطب ہوا وہ دکھ و تاسف سے اس کی طرف دیکھتی رہی گئی تھیں۔
”میں آپ کے روم میں آنے کا حق نہیں رکھتی شیری؟“
”دس از ناٹ آئی مین، آپ غلط مت سمجھیں ماما۔
“ وہ ڈھیلے انداز میں صوفے پر بیٹھتے ہوئے گویا ہوا۔
”میں چاہتا ہوں آپ یہاں آ کر مجھے گلٹ نہ کیا کریں، مجھے یہ سب اچھا فیل نہیں ہوتا۔ آپ جانتی ہیں میں بچہ نہیں ہوں، بڑا ہو گیا ہوں۔“
”میں آپ کو شرمندہ کرنا کیوں چاہوں گی بیٹا! بڑی محبت سے میں نے آپ کو یہاں بلوایا ہے آپ میرے اکلوتے بیٹے ہیں آپ میں میری جان ہے میں بھلا آپ کو گلٹ کیوں کروں گی۔
“ اس کے غصے پر ان کی ممتا حاوی ہو گئی تھی وہ شفقت سے گویا ہوئیں۔
”میری محبت میں آپ کیا کر سکتی ہیں؟“ وہ کسی خیال کے آتے ہی ان سے خاص لہجے میں گویا ہوا تھا۔
”کیا چاہتے ہیں آپ یہ بتائیں؟“ وہ مسکرائیں۔
”سوچ لیں ماما! یہ چیلجنگ کوئسچن ہے آپ کیلئے، اگر آپ جیت نہ سکیں تو بہت پرابلمز کری ایٹ ہو جائیں گی میرے لئے۔“ اس کا انداز بے عجیب تھا مسز عابدی کا دل دہل کر رہ گیا تھا۔
”خدا نخواستہ، یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ شیری؟“
”میں سچ کہہ رہا ہوں ماما! اگر آپ اس چیلنج میں کامیاب نہ ہوئیں تو میں کبھی واپس نہ آنے کیلئے امریکہ چلا جاؤں گا۔“
”میرا تو دل ہو لے جا رہا ہے بی پی شوٹ ہونے لگا ہے میرا، یہ کیسی باتیں ہیں ابھی آئے آپ کو دن ہی کتنے ہوئے ہیں، جو ایسی منحوس باتیں کرنے لگے ہیں آپ۔“ ان کی آواز میں تکلیف محسوس کرکے اس نے مڑ کر ان کی طرف دیکھا تھا اور ان کو زرد چہرے کے ساتھ پسینہ پسینہ دیکھ کر وہ گھبرا کر آگے بڑھا۔
”ارے آپ تو بہت تکلیف میں ہیں کیا ہوا ماما؟“
”مجھے میرے روم میں لے چلو، ٹیبلٹ لینی ہو گی مجھے جلدی سے۔“ وہ اس کا سہارا لے کر چلنا چاہتی تھیں اور وہ جو بہت اکھڑ اور خود غرض بنا ہوا تھا اچانک بگڑنے والی ان کی طبیعت دیکھ کر شدید پریشان ہو گیا تھا اس نے ان کے کمزور وجود کو بازوؤں میں اٹھا لیا تھا۔
”ہمیں فوراً ہسپتال جانا ہوگا ماما!“ وہ کمرے سے نکلتے ہوئے بولا۔
”نہیں، ٹیبلٹ لے کر میری طبیعت بہتر ہو جائے گی، تم فکر مت کرو، کبھی کبھی میرا بی پی شوٹ کر جاتا ہے ٹھیک ہو جاؤں گی ابھی۔“ ان کے اصرار پر وہ ان کو کمرے میں لے آیا تھا اور ملازم بھی ساتھ تھا۔ اس نے ہی دوا دراز سے نکال کر دی تھی۔ ٹیبلٹ کھانے کے بعد وہ کچھ دیر میں ہی بے خبر سو گئی تھیں۔
”برکت! ماما کی ایسی حالت کب سے ہے؟“ اس نے باہر نکل کر پرانے ملازم سے دریافت کیا تھا۔
”ایک سال پہلے بیگم صاحبہ کو دل کا دورہ پڑا تھا تب سے ہی۔“
”اوہ! اتنی بڑی بات مجھے ماما اور ڈیڈی نے نہیں بتائی ہے۔“ اس نے ہاتھوں سے سر تھام لیا تھا۔

   1
0 Comments